Posts

"ٹیکنالاجی اور دوری کی وجہ"

ہم ٹیکنالاجی کے دؤر میں چل رہے ہیں ٹیکنالاجی نے جہاں ہماری رفتار میں اضافہ کردیا ہے وہاں ہمیں اندر سے ویران بھی کر دیا ہے  ہم بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہوچکے ہیں زندگی ہمارے لیئے دبائو، ٹینشن، انگڑائی کے سوا کچھ بھی نہیں رہی ہم بیمار ہوچکے ہیں مگر  ٹیکنالاجی ہماری ٹینشن اور فرسٹیشن کی واحد وجہ نہیں  ہمارے معاشی دباؤ سماجی افراتفری،رشتوں کی ٹوٹ فوٹ، دوست احباب کی منافقت،دہشت گردی بجلی کی لوڈشیڈنگ، اور انصاف کی کمی جیسے اشوز بھی  معاشرے میفرسٹیشن اور  ٹینشن پیدا کر رہے ہیں،  یے تمام عناصر مل کر ہماری خوشیوں کو نگل رہے ہیں ایسے میں ہم پاگل پن کا شکار ہو رہے ہیں  معاشرے میں لوگ جب سنی سنائی باتوں پے بڑے بڑے فیصلے کرنے لگے جب لوگ اپنی ذاتی  سوچ کو فلسفے کی شکل دینے لگے،  اور لوگ جب اپے فرقے کو مذھب سمجھنے لگے تو آپ جان لیں کے معاشرہ پاگل پن کی حدود میں داخل ہوچکا ہے، اور لوگ اب لوگوں کو کاٹ کر کھانا شروع کر دیں گے،  تو آج کل ہم ایسے حالات سے گذر رہے ہیں. " محمد علی"

کرپشن کے پھاڑ

گورکھ ہل کی طرح ہمارے اٍداروں میں بھی کرپشن کے پھاڑ بنے ہوئے ہیں ایک دوست سے بات کر رہا تھا تو وہ اپنے اندر کی آگ اُگلنے لگا کھا کہ ہمارے انچارج حق ادائی نہی کرتے صرف ایک بندے کو جو کنسلٹ ہے ان سے اس کو کھلاتے رہتے ہیں اور باقی کے مال سے اپنے پیٹ 😊 بھرتے رہتے ہیں. یے بات سن کر میں تو دنگ رہ گیا کے ایک پانچ وقت کا پابند بندہ اوپر کی کمائی کے لیئے اتنا تڑپ رہا ہے.باتوں کے دوراں جب میں نے اس سے کھا کہ کیا یے حلال ہے تو اس نے کھا کیو نہیں جو ہم کام کرتے ہیں تو یے اس کام کی خرچی ہے 😲 میں نے کھا کہ یار جو تم کام کرتے ہو اس کا تو تمیں گورنمینٹ ذرے ذرے کا حصاب دیتی ہے اور آپ تو ماشااللہ نیک نمازی بندے ہو اور اوپر کا مال یعنی رشوت یے تــــــــــــــــو گناھ ہے کیا آپ کی یے نمازیں پھر قابلے قبول ہونگی.؟ تو کھنے لگا کہ اوپر چل کر کونسا سا صرف مجھے حصاب دینا ہیں سب کو دینا پڑیگا یہاں پے جو ضرورتیں ہیں وہ تو پوری کرنی ہے نا ویسے بھی میں ان سے پوری ایس ایم سی تھوڑی نا مانگ رہا ہوں میں تو بس یے چاہتا ہوں کہ جو میں محنت کرتا ہوں اس کا پھل ملے بس اور میں کچھ نہیں مانگتا. حد ہوگئی یار جب تک ہمارے ادا...

بھگوان تمہارا بھلا کرے

"بھگوان تمہارہ بھلا کرے' کسی پرانی قوم کے عقائد و افکار کا جائزہ لیتے وقت اس کی سماجی اور معاشرتی حالات کو ذھن میں رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے ورنہ اُن عقائد و افکار کے اصل محرقات ہمارے سمجھ میں نہیں آسکتے مگر انسان کا معاشرہ ساکن و جامد شے نہیں بلکہ اُس میں وقت فوقت بعض اہم اور بنیادی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہمیں اُن تبدیلیوں کا بہی علم ہونا چاہیئے۔ کیوکہ انسان کے خیالات اور احساسات  تبدیلیوں کا گہرہ اثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن علامتوں اور اصطلاحوں کے اصل مفھوم سے بھی آگاھ ہونا چاہیئے۔اس لیئے کہ الفاظ کی شکلیں اگر چہ کم بدلتی ہیں لیکن اُن کی معنی مطالب میں عہد بہ عہد تبدلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاََ دیوی دیوتا کی اصطلاحیں قدیم زمانے میں کسی اور معنی میں استعمال کرتے تھے اور ہم کسی اور معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ اب میں اصل معدے پے آتا ہوں۔ میں کچھ دوستوں سے جب مخاطب ہوتا ہوں تو میں اُن کو کہتا ہوں کہ ( بھگوان تمہارا بھلا کرے) میرے اس جملے پہ دو تین دوستوں کو غصہ لگتا ہے مگر ایک دوست نیں تو حد کردی تھی میں نے جیسے ہی اُسے کہا کہ بھگوان تمہارا بھلا کرے تو اُس نے جھٹ سے اپنی چپل م...

نئی تھذیبوں کے ایوان

اِس زمین میں ماضی کے نہ جانے کتنے مزار پوشیدہ ہیں۔ قومیں جن کا ایک فرد بہی اب صفہ حستی پے موجود نہیں ہے۔ زبانیں جن کا اب بولنے والا کوئی بہی زندہ نہیں۔پر رونق شہر عظیم اور عالیشان محل جن کا اب کوئی بہی نشان نہیں ہے۔ لیکن  ماضی کبھی نہیں مرتا۔ وہ خاق میں ملتے ملتے بہی اپنے فکر و فنااور  علم و فن کا خزانہ حال  کے حوالے کر جاتا ہے حال جو مستقبل کا پہلا قدم ہے۔اجداد کے اثاثے کی چھانپھٹک کرتا ہے ۔جو اشیاؑ کار آمد اور مفید ہوتے ہیں  اُن کو کام میں لاتا ہے۔جو اقدار اور روائیتین صحتمند ہوتی ہیں ان کو  قبال کر لیتا ہے۔البتہ بیکار چیزوں کو رد کر دیتا ہے۔اور جب زندی کا کاروان اگلی منزل کی طرف کوچ کرتا ہے تو اس کے سامان مین نئین تجربات  اور تخلیقات کے علاوہبیت سی  پرانی چیزیں بہی ہوتی ہیں۔قافلا حیات کا سفر یوں ہی ہزاروں سال سے  جاری ہے۔قومیں فنا ہوجاتی ہیں  مگر نئی نسلوں کے طرز و معاشرت پر صنعت، و حرفت  سوچ کے انداز پر  ادب و فن کے کردار پر ان کا اثر باقی رہتا ہے۔زبانیں مردہ ہوجاتی ہیں لیکن ان کے  الفاظ اور محاورے  نئی زبانوں میں داخ...

ذھنی خاکے کی ٹیکنک(تصور )

سب سے آسان اور صاف رستہ تصور کی جوڑجک کا ہے. یعنی ذھنی نقش بنانا اس کو اپنی ذھن کی آنکھوں سے اتنا صاف دیکھنا جیسے وہ آپ کے سامنے ہے. کھلی آنکھوں سے وی دیکھا جا سکتا ہے جو اس مادی دنیا میں موجود ہے. اسی طرح ہم اپنے ذھن کی آنکھوں سے نظر نا آنے والی سلطنت میں موجود تصویر کو دیکھ سکتے ہیں. جو کچھ بھی ہم اپنے تصور میں تشکیل دیتے ہیں وہ اتنا ہی حقیقی ہے جتنا ہمارے جسم کا کوئی حصہ. تصور اور خیال اصلی ہوتے ہیں اگر ہم ذھنی تصور کے وفادار ہیں تو ایک دن وہ ہمارے معروضی دنیا میں ضرور ظاھر ہونگے. جو ہم اپنے ذھن میں شکلیں یا نقش سوچتے ہیں وہ بعد میں ہمارے زندگی میں حقیقت اور تجربے بن کر ظاھر ہوتے ہیں. مثلن: ــ جب ہم کراچی یا کسی شھر جانا چاھتا ہیں تو پھلے ہم ذھن میں ایک نقش تیار کرتے ہیں کہ فلاں دن یا ٹائم ہم جائینگے فلاں دوست سے ملنا ہے فلاں ورکشاپ، پرچون، یا ھاسپیٹل سے ہوکر پھر ارسلان، وجاھت، نصراللہ، فرحان سے مل کر واپس آنا ہے تو یے نقش ہم پھلے سے بنا لیتے ہیں جو بعد میں حقیقت بن جاتا ہے. جو لوگ یے کھتے ہیں کہ تصور نہیں ہوتا تو ان کے لیئے اس آسان اور کیا ہوسکتا ہے. حالانکہ ہر انسان ہر وقت کس...

فائدہ ولی کی صحبت کا

اکثر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کا دروازا مضبوط اور خوبصورت ہو. اس کو خوبصورت اور مضبوط کاریگر بناتا ہے چاہے وہ لوہے کا ہو یا لکڑی کا.   ٹھیک اسی طرح انسان کا بھی تن من اور ارادہ بھی خوبصورت مضبوط ہوسکتا ہے اور وہ تب ہوسکتا ہے جب کسی اچھے کاریگر کے ہاتھ لگینگے. یعنی کسی ولی اللہ کی صحبت اختیار کرنی پڑیگی. اس کے دیئے ہوئے سبق پے عمل کرنا ہوگا اور اس کے سامنے اپنے مون کو سینا پڑے گا. جیسے لکڑی کسی کاریگر کے پاس آتی ہے بے جان ہوکر پڑی رہتی ہے اس لیئے کہ اس کی خوبصورتی کو ظاھر کرنے والا کاریگر ئی ہوتا ہے جو اس کو مختلف قسم کی ڈزائن بنا کر اس کو خوبصورت کرتا ہے پھر اس کی خوبصورتی کو جو بھی دیکھتے ہے وہ تعریف ئی کرتا رہتا ہے کاریگر کی بھی اور اس چیز کی بھی.  ٹھیک اسی طرح جب کامل ولی کی صحبت اختیار کی جاتی ہے تو  تکلیفیں بھی آئینگی مگر اف تک نہیں کرنا اس لیئے کہ اس کے بعد ئی تن من خوبصورت ہوتا ہے.  تکلیف اس لیئے ہوتی ہے کہ ہمارے اندر گند بھرا ہوتا ہے زمانے کا بری صحبتوں کا جب وہ صاف ہوجاتی ہیں تو نرواٹ ملتا ہے پھر اسی سلیم فطرت پے انسان لوٹ آتا ہے پھر آنند ئی آنند ہوتا ہ...

میرے مطابق تحت الشعور کے دو اقسام

اگر ہم ناکاری تخریبی اور برا سوچینگے تو ہمارے اندر تباھ کن جذبے پیدا ہوتے ہیں جو باھر نکلنے کی راہ ڈھونڈتے ہیں وہ راہ ہوتی ہے اظھار کی! اور وہ ناکاری قسم کا جذبا ویسے تو بہت سارے نقصان دیتا ہے مگر دو قسم کے موذی مرض ہمیں مبتلا کر دیتا ہے ہیں. 1. تحت الشعور کا ڈیمج ہونا. 2. بے چینی کا پیدا ہو. یے دونوں بہت ئی خطرناک ہوتے ہیں جو ہمیں دن بہ دن ضعیف کرتے رہتے ہیں اور پھر وہ ایک مفھوم کی شکل اختیار کر کے ہمارے جیون کے ہر دؤر میں ظاھر ہوتے رہتے ہیں. ہم منفی سوچ کو ویلکم کر کے خود پے ظلم کرتے ہیں ناکاری سوچ ہم میں غصہ، خوف، انتقام کی صورت میں ظاھر ہوتی ہے جو ہر وقت ہمیں زخمی کرتی رہتی ہے. یے زھر ہمارے تحت الشعور میں اوتر کر نقصان پھچاتے ہیں. ہم یے ناکاری روئیے لیکر پیدا نہی ہوئے ہیں اس لیئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تحت الشعور کو حیاتی بخش خیالوں سے بھرتے رہیں تو ہمارے اندر موجود سب ناکاری سوچ آہستہ آہستہ صاف ہوجائے گی  اور ہم منفی/ناکاری سوچ سے آزاد ہوجائیگے. ☜محمد علی☞